پوست بیضہ مرغ

انڈے کا چھلکا (پوست بیضہ مرغ)

ماہیت۔
انڈے سے زردی اور سفید نکال لینے کے بعد جو خول باقی رہ جاتا ہے، وہی انڈے کا چھلکا ہے۔

مزاج۔
سرد و خشک درجہ دوم ۔

افعال۔
قابض، مجفف، جالی ۔

استعمال۔
انڈے کے چھلکے کو سوختہ کر کے یا اس کا کشتہ بنا کر جریان الرحم اور زیابیطس وغیرہ میں کھلاتے ہیں۔ اور اکثر سرعت انزال میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔ چھلکا سوختہ کرکے امراض چشم خصوصاً گل چشم میں بطور سرمہ آنکھ میں لگاتے ہیں۔ نکسیر کو روکنے کیلئے اس کا نفوخ کرتے ہیں۔

مقدارخوراک۔
کشتہ ایک سے چار جبکہ سوختہ ایک گرام تک۔

آملہ

آ

ملہ (آنولہ )
(Emblic Mytoblan )
دیگر نا م۔
ہندی اور گجراتی میں آنبلہ ،فا رسی میں آملج ، سندھی میں آنوارا ، سنسکر ت میں شری پھل ، آمرت پھل اور آملک کہتے ہیں ۔

فیملی۔
یہ پاکستا ن اور ہندوستان کا بہت زمانہ سے جا نا پہچانا درخت ہے۔ اور آیو دیدک میں اسکا بہت بلند مقام ہے ۔

ماہیت۔
اس کا درخت مختلف جگہو ں میں چھو ٹا بڑا ہو تا ہے۔ یعنی جنگلی کا در خت بڑا لیکن قلمی جس کو بنارسی کیا جاتاہے وہ درخت چھو ٹا ہو تا ہے ۔

تناْ۔
ٹیڑھا سخت لکڑی کا اور اس کے اوپر کا چھلکا لگ بھگ چو تھا ئی انچ مو ٹا اور راکھ کی طر ح سفیدی مائل ہو تا ہے ۔ اور ہر سا ل اتر تا رہتا ہے ۔

پھل۔
کا غذی کی طر ح چھوٹے بڑے لیکن گول جو قدرتی طور پر چھ پھانکو ں میں تقسیم ہو تے ہیں ۔ پھل کا چھلکا بہت پتلا ہو تا ہے جن کے اندرایک دو جنوری تک زردیاسرخی مائل زرد ہو جا تا ہے ۔ آملہ کا پھل اگست اور ستمبر میں سبز اور پھر نومبر سے جنو ری تک زرد یا سر خی مائل زرد ہو جاتاہے ۔ اس کا وزن عموماً پچیس گرام لیکن قلمی آملہ کا وزن پچا س گرام ہو تا ہے ۔ بڑا آملہ عمو ماً مربہ کے لئے جب کہ چھو ٹا آملہ ادویا ت کیلئے خشک کیے جا تے ہیں ۔ مو سم خزاں کے بعد ما رچ اپریل میں شاخوں پر سبزی مائل زرد بہت چھو ٹے چھو ٹے گچھو ں میں اوران سے خو شبو لیمو ں کے پھلوں کے طرح آتی ہے۔

مقام پیدائش۔
عمو ماً کنکریلی اور پتھر ی زمین میں پیدا ہو تا ہے اور سمندری کنا روں کے نز دیک بھی پید ا ہو تا ہے۔

رنگ۔
تازہ بھورا سبزی مائل زردجبکہ خشک سیا ہی مائل نیلگوں اور اس پر جھر یا ں پڑی ہو تی ہیں۔

ذائقہ۔
پہلے کھٹا اور کیسلا لیکن بعد میں شیر یں لگتا ہے ۔

مزاج ۔
سرد پہلے درجہ میں ، خشک دوسر ے درجے میں ۔

افعال و خواص۔
مقوی اعضاء ریئسہ، مقوی معدہ ، مسکن حدت صفراء و خون ،مقوی چشم ، مقو ی و مسود شعر ، قابض خفیف ، مدر خفیف ۔

استعمال۔
حا فظہاور دما غ کو تیز کرتا ہے ۔قوت بصر کو طاقت دینے کے علاوہ غفقان، ضعف قلب اور ضعف معدہ کو دور کر نے کیلئے آملہ کا استعما ل باکثرت کیا جا تا ہے ۔ صفراء اور خون کے جو ش کو تسکین دینے کے علاوہ پیاس زائل کر نے اور دستو ں کو روکنے کیلئے مفید ہے ۔ آملہ کا پانی یا عصا رہ تیار کر کے تقویت چشم کے لئے آنکھو ں میں لگاتے ہیں ۔ آملہ کے خیساندہ یا جو شاندہ کے سا تھ بال دھونے سے بال صاف ہو جا تے ہیں ۔ وٹامن سی کی وجہ دل و دما غ اور پٹھو ں کو طا قت دیتا ہے ۔رحم اور آنکھو ں کیلئے مقوی ہے ۔اعضا ء کی زائد رطوبت کو خشک کرتا ہے اور ہائی بلڈ پر یشر کیلئے مفید ہے ۔ جب کہ بلڈ پر یشر زیا دہ ہا ئی نہ ہو ۔ اس میں ترش تیزاب ہو نے کی وجہ سے بھوک لگتی ہے ۔ لیکن آنتو ں پر اس کا خاص اثر نہیں ہو تا ہے ۔ دما غ کی طرف اجتما ع خون کو کم کر تا ہے ۔اس لئے صداع ، تبخیر معدہ ،ما لیخولیا اور فالج میں مفید ہے ۔ رعا ف، خونی بواسیرکو ضما داًواکلاً مفید ہے ۔ وٹامن سی کی وجہ سے بہتے پھوڑے پھنیسو ں میں مفید ہے اگر برگ نیم کے ساتھ ملا کر کھایا جائے تو مصفیً خون ہے ۔ایک کلو تازہ آملو ں میں چھ ہزار یو نٹ وٹامن سی اور پا نچ سوحرارے ہوتے ہیں ۔وٹامن سی کے علاوہ آملہ میں فولاد کی بھی کچھ مقدار پائی جا تی ہے نیز درج زیل اجزاء بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کا تناسب دس فیصدی ہے ۔

ٹے ٹین ، گیلک ایسڈ ، گلو کو ز، کیلسم اور ٹینک ایسڈاس تجزیہ سے معلوم ہو تا ہے کہ پاءئیو ریا کے علاوہ لیکو ریا اور مزکورہ امراض کی مفید ترین دواء ہے ۔

نفع خاص۔
مقوی اعضائے ریئسہ ،لشہ دامیہ ، حابس ، اسہال اور مقوی معدہ ۔

مضر۔
قبض گو، قولنج پیدا کر تا ہے ۔

مصلح ۔
شہد ،روغن بادام ۔

بدل۔
ہلیلہ کاہلی صرف تقویت معدہ میں ۔

مقدار خوراک ۔
تین سے پانچ ما شہ یعنی گرام ۔ مر کبات ۔
جوارش آملہ سادہ ، جوارش آملہ غبری بہ نسخہ کلاں ، جوارش شاہی ،رو غن آملہ ، روغن گیسو دراز ، ہر قسم کی اطریفل میں لازمی طور پر شا مل ہے

نوٹ۔
آملہ کی مذکورہ خصوصیت کی وجہ سے آج کل پاکستان اور ہندوستان میں شیمپو آملہ اور روغن آملہ کی بھرمار ہے ۔

آیودویدک میں مرکبات ۔
انو شداد، مربہ اور چیون پراش مشہور مرکب ہیں

توت سیاہ

توت سیاہ، شہتوت سیاہ۔

دیگرنام۔
عربی میں قوت حامض

،فارسی میں شہتوت سیاہ۔

ماہیت۔
شہتوت کا درخت درمیانہ قد کا ہوتا ہے جس کی شاخیں ہیڈ کی طرح لمبی پتلی اورلچک دار ہوتی ہے پتے بڑے کھردرے اورکٹے ہوئے انجیر کے پتوں کی طرح اور دندانے دار ہوتے ہیں۔پھل لمبا اور فلفل دراز کی شکل کا ہوتا ہے۔عموماًدوا کے طور پر سیاہ توت کا استعمال اچھا سمجھا جاتا ہے پتے سردیوں یعنی موسم بہار میں نکلتے ہیں پھول چھوٹے جو بعد میں پھل کی جگہ لے لیتے ہیں ۔اس کا پھل پہلے سبز بعد میں لال اور پک کر سیاہ ہوجاتاہے اس کی لکڑی زرد رنگ کی ہوتی ہے اور پتوں پر ریشم کے کیڑے پالے جاتے ہیں۔

نوٹ۔
مذکورہ دونوں اقسام کے علاوہ اس کی ایک قسم بلوچستان میں پیدا ہوتی ہے جس کو مورس نائیگرہ کہتے ہیں۔

مزاج۔
سرد تر ۔

افعال۔
مبرد، قابض، رادع موار خصوصاً توت خام، ملطف، مفتح سدد، مسکن حدت خون، قاطع صفراء، محلل اورام حار حلق وحنجرہ، جڑ کی چھال قاتل کرم شکم۔

استعمال۔
محلل اورام حارحلق و حنجرہ ہونے کی وجہ سے درد گلو خناق ورم حلق ورم زبان قلاع و ثبور دہن میں مفید ہے اس مقصد کیلئے پھلوں کا پانی نکال کر پلایا جاتا ہے یا شربت توت پلاتے ہیں۔

توت سیاہ کے پتوں کا پانی آب کشینز سبز میں تھوڑی سی پھٹکڑی ملا کر یاصرف اس کے پتوں کا جوشاندہ بناکر غرغرے کرنے سے مذکورہ امراض حلق کیلئے مفید ہے مبرد ہونے کے باعث پیاس کو تسکین بخشتا اور حدت خون کو دورکرتا ہے صفراوی مزاج اشخاص میں معدہ کو مضر نہیں۔
توت کے پتے اور جڑ کے جوشاندہ سےغرغرہ کرنا اورام حلق کیلئے مفید ہے جڑ کا جوشاندہ قاتل حب لقرع ہے خصوصاً جب اس کے ہمراہ برگ شفتالو اضافہ کرلیا جائے توت کو چھال اور پتوں کے جوشاندہ سے مضمضہ کرنا درد دندان کیلئے مفید ہے ۔

نفع خاص۔
امراض حلق کیلئے۔

مضر۔
اعصاب اور سینے کے امراض ۔

مقدارخوراک۔
تازہ توت پانچ تولہ سے دس تولہ تک بطور غذا اس کا پانی دو تولہ سے پانچ تولہ رب ایک تولہ سے تین تولہ تک استعمال کرسکتے ہیں۔

شربت توت سیاہ۔
استعمال۔
گلے کے درد ورم درد حلق کو فوراً ٹھیک کرتا ہے گلے کے غدو بڑھ جانے اور آواز جانے کی شکایت میں مفید ہے شربت توت سیاہ خناق میں بھی مفید ہے یہ صرف حلق کے امراض میں مستعمل ہے امراض سینہ میں مضر ہے۔

مقدارخوراک۔
25 ملی لیٹر سے شربت عرق گائے زبان 125ملی لیٹر کے ساتھ یا ایک ٹیبل اسپون شربت گرم کرکے دن میں چار پانچ مرتبہ چاٹ لیں۔

سرس

س

رس ’’شیریں ‘‘
(Siris -Tree)
لاطینی میں ۔
(Mimosa -Sirisa Rox)
خاندان۔
Legominosae
دیگرنام۔
عربی میں سلطان الاشجار فارسی میں درخت ذکریا پنجابی میں شیریں مرہٹی میں شرس گجراتی میں شرسٹرو بنگالی میں گاچھ یا سرز سندھی میں سرتھن کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
سرس کا درخت عموماًساٹھ ستر فٹ بلند ہوتاہے۔اس کا تنا مضبوط اور موٹا ہوتاہے۔جس پر بہت سی شاخیں نکلتی ہیں ۔اس کے پتے آملہ کے پتوں کی طرح لیکن اس سے کچھ بڑے ہوتے ہیں ۔یہ شاخ کی درمیانی سیخ کے دونوں طرف لگتے ہیں ۔جن کا رنگ گہرا سبز ہوتاہے۔پھول چھوٹے ریشوں سے آراستہ نہایت ملائم سبز اور کچھ زرد بھینی بھینی خوشبو والے اور خوبصورت ہوتے ہیں ۔پھلی پتلی اور چپٹی ڈیڈھ انچ چوڑی اور آٹھ انچ سے ایک فٹ تک لمبی جن کے اندر سے آٹھ سے دس تک تخم چپٹے ہوتے ہیں ۔یہ سخت بھورے کالے سفید رنگ کے ہوتے ہیں ۔اس کے پتے یا پتوں کا رس تخم اور چھال بطور دواء مستعمل ہیں۔

اقسام ۔
سرس کئی قسم کا ہوتاہے۔
۱۔ کالاسرس ۲۔ سرس زرد۔ ۳۔ بھورا سرس اور سبز سرس ۔

مقام پیدائش۔
پاکستان میں یہ زیادہ تر پنجاب سندھ میں جبکہ ہندوستان میں وسطی اور جنوبی ہند کے علاوہ پنجاب میں یہ مشہور درخت عموماًجنگلوں میں اور بعض جگہ سڑکوں اور نہروں کے کنارے پایا جاتا ہے۔

افعال۔
بیرونی طور پر جالی ،محلل اور مجفف ۔
اندرونی طور پر مصفیٰ خون ۔

تخم کے افعال۔
جالی ،مقوی و مغلظ منی ،مقوی بصر، محلل۔

چھال کے افعال۔
جالی ،محلل، مجفف، مصفیٰ خون ،مقوی بدن۔

پتوں کے افعال۔
دافع یرقان ،دافع بخار، پتوں کا رس مقوی بصر،

استعمال۔ (بیرونی)
شب کوری کے ازالہ کیلئے سرس کے پتوں کا پانی آنکھ میں قطور کرتے ہیں مقوی بصر ہونے کی وجہ سے اس کے تخموں کو سرمہ کی طرح باریک کرکے لگانا شبکوری، دھند، غبار، خارش چشم اور آنکھ کے سفیدی کیلئے مفید ہے ۔چھال کو باریک پیس کر زخموں کو خشک کرنے کیلئے چھڑ کتے ہیں ۔چھال کو پانی میں جوش دے کر دانتوں کے درد کو تسکین دیتے اور مسوڑوں کو مضبوط کرنے کیلئے مضمضے کراتے ہیں اور پانی میں پیس کر مہاسوں کو دور کرنے اور پھوڑے پھنسیوں کو تحلیل کرنے کیلئے لگاتے ہیں ۔اور امراض فساد خون میں جوش دے کر پلاتے ہیں ۔سرس کی پھلی کو آگ پر ڈال کر دھواں لینے سے مرض دمہ موقوف ہوجاتا ہے۔

بعض لوگ اس کے پتوں کے پانی میں سرمہ کو رگڑ کر بناتے ہیں اور آنکھوں کی طاقت یا مذکورہ امراض میں اس سرمہ کو استعمال کرتے ہیں ۔تخم سرس کو باریک سفوف بناکر ہلاس کے طور پر سونگھنے سے نزلہ زکام کو آرام آتا ہے۔

اندرونی استعمال۔
چھال کا جوشاندہ اورام بدن اور جلدی امراج میں مفید ہے۔تخم سرس اور چھال کا سفوف بنا کر حسب ضرورت چینی ملاکر رقت منی اور ضعف باہ میں کھلانا بہت مفید ہے۔تخم سرس کو باریک پیس کر شہد میں ملاکر معجون بناکر خنازیر میں کھلانے سے مادہ کو دورکرتاہے۔مصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے فساد خون میں اس کی چھال کو جو ش دے کر پلانا مفیدہے۔تخم سرس کاسفوف بناکر خونی بواسیر میں بھی کھلاتے ہیں ۔چھال جوشاندہ استسقاء میں پلانامفیدہے۔سرس کے پھولوں کو سکھا کر سفوف بنا کر مناسب مقدار میں چینی ملاکر کھانے سے احتلام کا مرض جاتا رہتا ہے۔

نفع خاص۔
مغلظ منی ،مقوی دندان ،۔

مضر۔
خشک مزاجوں کیلئے ۔

مصلح۔
روغن زرد۔

مقدارخوراک۔
چھال پانچ سے سات گرام یا ماشے ۔

تخم
ایک سے دو گرام یا ماشے ۔

شیر خشت

م

امیرا ’’مامیراں‘‘ ممیرا
Coptis Teeta
دیگر نام۔
اردو میں ممیرا، سندھی میں مہمیرو، آسام میں مثمی ٹیٹا، انگریزی میں کوپٹس ٹیٹا اور لاطینی میں کوپٹس ٹیٹادال اور عام طور پر ممیری یا پیارانگا اور مامیرا چینی کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
ایک بوٹی کی ہلدی کی مانند گرہ دار اور ٹیڑھی جڑ ہے۔ اس کا پتاگہرے شگافوں کے ذریعے تین حصوں میں پھٹاہوا ہوتاہے۔پتے چکنے بغیر رواں کے ہوتے ہیں اگر تین عدد شہتوت کے پتوں کو جوڑ کر رکھ دیا جائے تو ممیرا کا ایک پتا بن جاتا ہے ۔ پتا کا ہر حصہ بیضوی لمبوترا نظر آتا ہے۔ ہر پتے کا کنارا دندانے دار ہوتا ہے۔ اور پتوں کے ڈنٹھل چھ سے بارہ انچ لمبے ہوتے ہیں ۔

بوٹی سے ایک گندل نکلتی ہے ۔جس پر تین تین سفید رنگ کے ڈنڈے دارپھول لگتے ہیں ہر ایک پھول کی ڈنڈی پر دوننھے ننھے پتے سے نکلتے ہیں ۔کاسہ گل میں پانچ چھ لمبوترے نوک دار آدھی انچ لمبی پتیاں ہوتی ہیں ۔ہر کلی لمبی پتلی اور فیتہ نماہوتی ہے۔اس کی جڑ گاجرمولی کی طرح زمین میں سیدھی نہیں ہوتی بلکہ پہلو کے بل ملتی ہے۔یہی اصل ممیراکا پوداہے۔جڑ کا رنگ باہر سے سفیدزرد مائل بہ سیاہی اندرسے ہلدی جیسی زرد اور ذائقہ تلخ ہوتاہے۔یہی بطوردواء استعمال ہوتی ہے۔

ممیرا کے بارے میں جتنی بھی کہانیاں ہیں وہ سب مبالغہ آمیز ہیں ۔

مقام پیدائش۔
کابل سے آسام تک ہمالیہ کی پانچ ہزار فٹ بلندی خصوصاًمثمی پہاڑ ’’آسام ‘‘میں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ چین میں بکثرت ہوتی ہے۔جبکہ تبت پر کم کم پیدا ہوتی ہے۔چین میں پیداہونے والی مامیراں بہترین قسم ہے۔

مزاج۔
گرم خشک درجہ سوم ۔

افعال۔
بیرونی طور پر جالی مقوی بصر ۔
اندرونی طورپر دافع بخار کاسرریاح مدربول۔

استعمال بیرونی ۔
جالی ہونے کے باعث ممیرا کو تنہا مناسب ادویہ کے ہمراہ کھرل کرکے امراض چشم مثلاًضعف بصر ،جالاپھولا اور ناخونہ وغیرہ میں مستعمل ہے۔جالی ہونے کی وجہ سے ممیرا کو شہد اور سرکہ کے ہمراہ پیس کر برص ،بہق ،جرب اور جلد کے داغ دھبوں کو صاف کرنے کیلئے طلاء کرتے ہیں ۔

استعمال اندرونی۔
حمیٰ اجامیہ میں اس کے پتے مریض کو کھلاتے ہیں جس سے بخار دور ہوجاتاہے۔انیسوں کے ہمراہ پیس کر مدربول ہونے کی وجہ سے یرقان سدی میں پلاتے ہیں اور مناسب ادویہ کے ہمراہ سوزاک میں کھلاتے ہیں یہ کاسرریاح بھی ہے۔

نفع خاص۔
امراض چشم ۔

مضر۔
گردوں کے امراض میں ۔

مصلح۔
شہد خالص۔

بدل۔
مرمکی ہلدی ۔

مقدارخوراک۔
ایک سے دو گرام یا ماشہ ۔
مشہور مرکب۔
سفوف مامیراں کحل الجواہر وغیرہ ۔

مامیرا

م

امیرا ’’مامیراں‘‘ ممیرا
Coptis Teeta
دیگر نام۔
اردو میں ممیرا، سندھی میں مہمیرو، آسام میں مثمی ٹیٹا، انگریزی میں کوپٹس ٹیٹا اور لاطینی میں کوپٹس ٹیٹادال اور عام طور پر ممیری یا پیارانگا اور مامیرا چینی کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
ایک بوٹی کی ہلدی کی مانند گرہ دار اور ٹیڑھی جڑ ہے۔ اس کا پتاگہرے شگافوں کے ذریعے تین حصوں میں پھٹاہوا ہوتاہے۔پتے چکنے بغیر رواں کے ہوتے ہیں اگر تین عدد شہتوت کے پتوں کو جوڑ کر رکھ دیا جائے تو ممیرا کا ایک پتا بن جاتا ہے ۔ پتا کا ہر حصہ بیضوی لمبوترا نظر آتا ہے۔ ہر پتے کا کنارا دندانے دار ہوتا ہے۔ اور پتوں کے ڈنٹھل چھ سے بارہ انچ لمبے ہوتے ہیں ۔

بوٹی سے ایک گندل نکلتی ہے ۔جس پر تین تین سفید رنگ کے ڈنڈے دارپھول لگتے ہیں ہر ایک پھول کی ڈنڈی پر دوننھے ننھے پتے سے نکلتے ہیں ۔کاسہ گل میں پانچ چھ لمبوترے نوک دار آدھی انچ لمبی پتیاں ہوتی ہیں ۔ہر کلی لمبی پتلی اور فیتہ نماہوتی ہے۔اس کی جڑ گاجرمولی کی طرح زمین میں سیدھی نہیں ہوتی بلکہ پہلو کے بل ملتی ہے۔یہی اصل ممیراکا پوداہے۔جڑ کا رنگ باہر سے سفیدزرد مائل بہ سیاہی اندرسے ہلدی جیسی زرد اور ذائقہ تلخ ہوتاہے۔یہی بطوردواء استعمال ہوتی ہے۔

ممیرا کے بارے میں جتنی بھی کہانیاں ہیں وہ سب مبالغہ آمیز ہیں ۔

مقام پیدائش۔
کابل سے آسام تک ہمالیہ کی پانچ ہزار فٹ بلندی خصوصاًمثمی پہاڑ ’’آسام ‘‘میں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ چین میں بکثرت ہوتی ہے۔جبکہ تبت پر کم کم پیدا ہوتی ہے۔چین میں پیداہونے والی مامیراں بہترین قسم ہے۔

مزاج۔
گرم خشک درجہ سوم ۔

افعال۔
بیرونی طور پر جالی مقوی بصر ۔
اندرونی طورپر دافع بخار کاسرریاح مدربول۔

استعمال بیرونی ۔
جالی ہونے کے باعث ممیرا کو تنہا مناسب ادویہ کے ہمراہ کھرل کرکے امراض چشم مثلاًضعف بصر ،جالاپھولا اور ناخونہ وغیرہ میں مستعمل ہے۔جالی ہونے کی وجہ سے ممیرا کو شہد اور سرکہ کے ہمراہ پیس کر برص ،بہق ،جرب اور جلد کے داغ دھبوں کو صاف کرنے کیلئے طلاء کرتے ہیں ۔

استعمال اندرونی۔
حمیٰ اجامیہ میں اس کے پتے مریض کو کھلاتے ہیں جس سے بخار دور ہوجاتاہے۔انیسوں کے ہمراہ پیس کر مدربول ہونے کی وجہ سے یرقان سدی میں پلاتے ہیں اور مناسب ادویہ کے ہمراہ سوزاک میں کھلاتے ہیں یہ کاسرریاح بھی ہے۔

نفع خاص۔
امراض چشم ۔

مضر۔
گردوں کے امراض میں ۔

مصلح۔
شہد خالص۔

بدل۔
مرمکی ہلدی ۔

مقدارخوراک۔
ایک سے دو گرام یا ماشہ ۔
مشہور مرکب۔
سفوف مامیراں کحل الجواہر وغیرہ ۔

روغن زرد

د

یسی گھی ’’روغن زرد‘‘
Charified Butter
دیگرنام۔
عربی میں سمن فارسی میں روغن زرد سندھی میں گیہ ،بنگلہ میں گھرت اور انگریزی میں کلیری فائیڈبیٹر کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
مشہور چکنائی ہے جوکہ حیوانات کے دودھ سے مکھن اور مکھن کو گرم کرکے حاصل کیا جاتا ہے لیکن بطور دواء گائے کا گھی یا روغن زرد زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔

دودھ سے دہی تیار کیا جاتا ہے۔ اور دہی کو خاص طریق سے گھوٹا جاتا ہے اور اس میں پانی شامل کرکے گھوٹتے ہیں جو چکنائی وہاں سے حاصل ہوتی ہے۔ اسکو مکھن کہتے ہیں اس کو آگ پر گرم کرکے صاف کرلیں یہ گھی یا روغن کہلاتا ہے۔

مزاج۔
گھی ۔۔۔گرم ایک تر درجہ سوم ۔۔۔

افعال۔
دافع تعفن ،ملین، مرطب جلد، محلل اورام ، مسکن درد، مقوی بدن ،مسمن بدن ،دافع زہر۔

استعمال۔
گھی کو جسم کی خشونت اور خارش کو دور کرنے کیلئے بدن پر مالش کرتے ہیں ۔مناسب ادویہ کے ہمراہ اس کے مراہم بنا کر زخموں کے تعفن کو دور کرنے اور ان کو جلد خشک کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔مراہم میں بالعموم دھویا ہوا گھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو نہایت قوی الاثر بیان کیا جاتا ہے۔ اوریہ بھی یاد رکھیں کہ یہ گھی اندرونی استعمال کے قابل نہیں رہتا ہے۔ یہ گھی ورموں پر لگانے سے ان کو تحلیل کرتا ہے اور ان کی سوزش کو تسکین دیتا ہے۔

اندرونی استعمال۔
گھی بکثرت کھایا جاتا ہے۔ گھی میں مکھن میں مصری ملاکر خشک کھانسی حلق اور سینہ کی خشونت کو زائل کرنے کیلئے چٹاتے ہیں، گھی کا زیادہ مقدار میں کثرت ملین شکم ہے۔ مقوی بدن مقوی باہ اور مسمن بدن حلووں میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔ گھی خواہ کسی طریق سے کھائیں، اس کی مقدار خوراک چھٹانک (روزانہ پچاس گرام) سے زیادہ نہ ہونی چاہیے۔ سنکھیا اور افیون خوردہ نیز مارگزیدہ کو شیرگاؤ کے ہمراہ مناسب بدرقہ، باربار پلاکے قے کراتے ہیں ۔

یادرکھیں ۔اگر گھی کو زیادہ عرصہ تک رکھنا ہو تو اس میں نمک کی ڈلی ڈال دینے سے محفوظ رہتا ہے۔

نفع خاص۔
مسمن بدن۔

مضر۔
معدہ کو۔

مصلح۔
جوارش

بدل۔
بالائی ،مکھن۔

مکھن

م

کھن
Butter
دیگرنام۔
عربی میں زبد فارسی میں مسکہ پشتو میں کوچ اور انگریزی میں بیٹر کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
مشہور عام ہے۔سب سے اچھا مکھن وہ ہے جو گائے کے دودھ کو جماکردہی سے حاصل کیا گیا ہو۔ گائے کے دودھ کا مکھن زرد جبکہ بھینس کے دودھ کا مکھن سفید اور خوش مزہ ہوتا ہے۔ جب کثیف دودھ سے مکھ نکالا جاتا ہے تو وہ ویسا ہی خطرناک ہوتاہے جیساکہ خراب دودھ والا۔

زیادہ دن تک رکھا رہنے والا مکھن بھی خراب اور اس کا ذائقہ کھٹا ہوتا ہے۔ اس میں سے بو بھی آنے لگتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ مکھن کو گرم کرکے دیسی گھی تیار کیا جاتا ہے۔

مزاج۔
گرم تر۔

افعال واستعمال۔
ملطف اور مقوی دماغ ہے بدن کو موٹا کرتا ہے۔ سدہ کھولتا آواز کو صاف کرتا ہے۔ ظاہری اور باطنی اورام کو مفید ہے مکھن اور شہد ملا کر شیرخوار بچوں کے مسوڑھوں پر ملنے سے دانت آسانی سے نکل آتے ہیں ۔خشک کھانسی کو فضلات کو براہ پیشاب خارج کرتاہے۔ ذات الجنب اور ذات الریہ کو شہد کے ہمراہ نافع ہے ۔جلد کونرم کرتا ہے۔

خاص احتیاط ۔
موٹے تازے افراد اور بلڈ پریشر کے علاوہ جن کا کولیسٹرول بڑھاہواہو۔ان کو مکھن استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔لیکن یہ بات یاد رکھیں ۔کہ کولیسٹرول کا نارمل لیول جسم کے لئے ضروری ہے ورنہ کمزوری اور قوت باہ بھی کمزور ہوجاتی ہے۔اور بہترین کولیسٹرول تازہ مکھن ہی سے حاصل ہوتاہے۔

کھیرا

ک

ھیرا
Cucumber
دیگرنام۔
عربی میں فثافارسی میں خیارو بادرنگ سندھی میں بادرنگ بنگالی میں سنساگجراتی میں تانسل سنسکرت میں ترپس اور انگریزی میں کوکم برکہتے ہیں ۔

ماہیت۔
مشہور پھل ہے پاکستان اور ہندوستان کے کھیرے کی جلد موٹی اور دانے دارہوتی ہے۔اس کا رنگ گہراسبز چمک سے محروم ہوتاہے۔اس کا پودا ایک رینگینے والی بیل ہوتی ہے ہمالیہ کے دامن سے لے کر کماؤں کی وادیوں تک کھیرے کی جنگلی قسمیں بھی پائی جاتی ہے کہاجاتاہے کہ کھیرا اور ککڑی موسم گرم کی سبزیاں ہیں اور ان کو پکتے وقت گرمی چاہیے مگر کچھ ایسی صورتیں پیداہوگئی ہیں کہ اکثر ممالک میں یہ پورے سال ملتاہے۔یہ بھی یاد رکھیں کہ کھیرا اور ککڑی الگ الگ پھل ہیں ۔

اور پاکستان و ہندوستان میں شکل اور ذائقہ کے لحاظ سے کھیرا اور ککڑی دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ کھیرا ککڑی سے موٹا اور لمبائی میں چھوٹا ہوتاہے جبکہ پاکستان میں بھی تقریباًسال بھر کھیرا ملتا ہے۔

مزاج۔
سرد تر درجہ دوم۔

افعال و استعمال۔
کھیرے کو چھیل کر نمک کے ہمراہ کھاتے ہیں یہ خون اور صفراء کی حدت کو دور کرتاہے اور پیشاب بکثرت لاتاہے ۔یرقان جوش خون کے بخاروں اور سوزش بول میں مفیدہے۔دردسرحار میں کھیرے کاسونگھنااور اسکے چھلکوں کو پیشانی پر رکھنا درد کو تسکین دیتاہے۔اور نیند لاتاہے ۔کھیرا خفقان حار کیلئے بھی مفید بیان کیاجاتاہے۔ اس کا بھلبھلایاہوا پانی تپ صفراوی اورخونی و بلغمی کو مفیدہے۔شدید بخاروں میں اس کی قاش سے تلوؤں کی مالش کی جاتی ہے۔پیشاب رک رک کر آتاہو تو اس کے بیجوں کو شیرہ بناکر پلاتے ہیں ۔

طب نبوی ﷺ اور کھیرا۔
کھیرا کا ذکر قرآن پاک سورۃ البقرہ کی آیت 61میں آیاہے۔اور توریت میں بھی ذکر موجود ہے۔

حضرت عبداللہ بن جعفرؓ روایت فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کی وہ کھجوروں کے ساتھ کھیرے کھارہے تھے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میری والدہ یہ چاہتی تھیں کہ میں جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جاؤں تو موٹی ہوکرجاؤں کیونکہ عرب موٹی عورتوں کو پسند کرتے تھے اس غرض کیلئے متعدد دوائیں دی گئیں مگر فائدہ نہ ہوا پھر میں نے کھیرا اور کھجور کھائے اور خوب موٹی ہوگئی۔

نفع خاص۔
دافع بے خوابی اور درد سرحار۔

مضر۔
سرد مزاجوں میں نفع پیدا کرتا ہے۔

مصلح۔
سکنجین ،کھجور ۔

بدل۔
ککڑی۔

مشہورمرکب۔
شربت مزوری میں تخم خیار خاص جزو ہے۔

کلوریز یا حرارے ۔
ایک درمیانہ کھیرا کھانے سے چھ کلوریز حاصل ہوتی ہے۔

کنیر

کنیر ’’دفلی‘‘
Oleander
دیگر نام۔
عربی میں دفلی یا سم الحمار فارسی خرزہرہ سندھی میں زنگی گل تامل میں لاری تیلیگو میں گنے رو ،بنگالی میں کروی یاکرابی انگریزی می

ں اولی اینڈر اور لاطینی میں نیز ی ام اوڈورم کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
کنیز ایک سدا بہار پودا ہے۔ اس میں موتیا رنگ کا لیسدار لعاب نکلتا ہے اس کی جڑیں ٹیڑھی ہوتی ہے تنا چھ سے نو فٹ تک بلند ہوتا ہے۔ اس کی لکڑی سخت ہوتی ہے۔چھال موٹی اور نرم جو باہر کی طرف سے سبزی مائل نیلگوں ہوتی ہے۔ پتے گچھوں میں جو پانچ یا چھ انچ لمبے نوک دار کھردرے ہوتے ہیں پھول بڑے بڑے شوخ سرخ یا گلابی میں سفید گچھوں کی شکل میں ہوتے ہیں ۔یہ پھل چھ سے نوانچ لمبا ہوتاہے۔اس کے اندر بہت سے تخم بھرے ہوتے ہیں ۔اس کے بیج سم قاتل ہیں ۔

مقام پیدائش۔
پاکستان میں صوبہ سرحد جبکہ ہندوستان میں پنجاب دہلی ہریانہ وسط ہند ہمالیہ کی ترائی میں خودرو ہے۔

مزاج۔
گرم خشک ۔۔۔درجہ سوم۔

افعال ۔
محلل مجفف جالی اور مقوی باہ۔

استعمال بیرونی
محلل ہونے کی وجہ سے اورام پر اسکے جوشاندے سے ٹکور کرتے ہیں جالی اور مجفف ہونے کے باعث اس کے پتوں کا سفوف بعض مرہموں میں ڈالتے ہیں سخت ورموں کو تحلیل کرنا خشکی اور جلاکرتاہے اس کا استعمال اکثر طلاؤں میں عضو مخصوص کو تقویت دینے کیلئے شامل کرتے ہیں اس کے خشک پتوں کا سفوف زخموں پر چھڑکتے ہیں جو زخم بھرنے میں مفید ہے۔

اس کے پھولوں کو خشک کرلیں اوربہت باریک سفوف بناکر اس کی ہلاس سے نزلہ زکام کھل کر سردرد چکرسرکہ بھاری پن شقیقہ اور درد عصابہ دور ہو جاتے ہیں ۔

استعمال اندرونی
مقوی باہ ہونے کی وجہ سے اس کی جڑ کا چھلکا دودھ میں ڈال کر جوش دے کر جمالیاپھر اس کا مکھن بناکر گھی بطورطلاو خوردنی تقویت باہ کیلئے استعمال کرتے ہیں اس کی جڑ اور پتوں کو مصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے جلدی امراض مثلاًجذام آتشک وغیرہ میں شامل کیاجاتاہے۔کنیز سفید کے پتوں کانمک پطریق معروف بناکر بواسیری خون بندکرنے کیلئے دہی کی بالائی کے ہمراہ کھلاتے ہیں اس کو اندرونی طور پر احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ درجہ سوم کی دوا ہے اور قریب بسم زہریلی ہے۔

نفع خاص۔
محلل اورام ۔

مضر۔
زہریلی دوا ہے۔

مصلح۔
دودھ ،دہی کی بالائی اور گھی

مقدارخوراک۔
ڈیڈھ رتی سے ایک ماشہ تک ۔

مشہور مرکب۔
روغن دفلی۔