خولنجاں

خولنجاں ۔
(Alpinia Galanga)
خاندان۔
(Scitaminaceae)
دیگر نام۔

بنگالی میں کلیجن ،تامل میں پرتتی ،مرہٹی میں کولنجن سنسکرت میں کلنجن سندھی میں پان پاڑ اور انگریزی میں الپانیا کے لین گا کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
اس کا پودا چھ سات فٹ بلند ہوتاہے۔پتے ایک دوفٹ لمبے اور چار انچ چوڑے اور نوکدار اوپر سے زیادہ سبز اور نیچے سے ہلکا روئیں دار ہوتے ہیں ۔پھول گرم موسم میں چھوٹے سفید رنگ کے ہوتے ہیں ۔پھل چھوٹے بجورالیموں کی طرح گول اور لال یا پیلے رنگ کے ہوتے ہیں ۔جڑلمبی بے ڈول گلابی بادامی رنگ کی مزے میں چریری ہوتی ہے۔ یہ بطور دوا مستعمل ہے۔

خاص بات۔
بعض لوگ اس کو غلطی سے پان کی جڑ بھی کہتے ہیں ۔لیکن پان کی بیل ہوتی ہے۔اور خولنجاں کا پودا ہوتاہے۔

مقام پیدائش۔
بعض لوگ اس کو بچھ کی ایک بری قسم شمار کرتے ہیں یہ چین سے جاواسماٹراآنے لگی اور اب بنگال جنوبی ہند سمندر کے کنارے دکھشن میں پیدا ہوتی ہے۔

مزاج۔
گرم خشک درجہ دوم ۔

افعال۔
مفرح ومقوی قلب مقوی و مسخن معدہ و جگر بارد دافع امراض بلغمی و سودای کا سرریاح مطیب دہن منفث و مخرک بلغم مدرلعاب دہن ،مسکن اوجاع باردہ ،مقوی باہ،جالی۔

استعمال۔
مطیب دہن ہونے کی وجہ سے منیہ کی بدبو کو زائل کرنے کیلئے چباتے ہیں ۔مدرلعاب دہن ہونے کی وجہ سے ثقل اللسان یا لکنت میں باریک پیس کر زبان پر ملتے ہیں ۔منفث و مخرج ہونے کی وجہ سے سرفہ ضیق النفس اور بچہ الصوت بلغمی میں استعمال کرتے ہیں ۔بلغمی دردوں خصوصاًدرد گردہ بارہ اور سلسل البول میں بھی کھلاتے ہیں ۔تقویت باہ کے لئے تنہا بھی بقدر تین گرام سفوف دودھ کے ہمراہ استعمال کرتے ہیں ۔کاسرریاح ہونے کی باعث درد شکم اور قولنج ریحی میں بھی استعمال ہیں ۔

جالی ہونے کی وجہ سے اس کا سفوف جلد کے داغ دھبوں کو ضماداًیاطلاًء مفیدہے۔ بوڑھوں کی کھانسی جوعموماًہر وقت رہتی ہے۔منہ میں اس کو رکھتے ہیں ۔یا اس کا سفوف بناکر تین گڑ ملا کر بیر کے برابر گولیاں بنالیں ۔اس کوچوسنے سے کھانسی کو آرام کرتاہے۔خولنجان کی جڑ کو باریک پیس کر شہد اور ادرک کے رس میں ملاکر پینا کھانسی نزلہ زکام بارد گٹھیا عرق النساء اور دیگر ریاحی امراض میں مفیدہے۔
مقوی باہ و مسکن ہونے کی وجہ سے تقویت باہ کی معجونوں اور سفوفات میں استعمال کرتے ہیں اور تنفس شکایتوں میں بالخصوص بچوں کیلئے مفید ہے۔چنانچہ بچوں کی کالی کھانسی میں خولنجاں پیس کر شہد میں ملاکر بطور لعوق چٹانا مفید ہے۔خولنجاں اور مٹھی پیس کر شہد کیساتھ چٹانے سے سینے کے تمام امراض کو نافع ہے۔گانے والے اور زیادہ بولنے والے لوگوں کو اس کی جڑ چوسنامفید ہے۔کیونکہ یہ آواز کو صاف کرتی ہے۔

نفع خاص۔
مقوی باہ و مفرح قلب ۔

مضر۔
حابس بول۔

مصلح۔
کتیرا ،صندل،طباشیر اور انیسوں ۔

بدل۔
دارچینی۔

مقدارخوراک۔
دو سے تین گرام یا ماشے ۔

مشہور مرکب۔
حب جدوار ،حلوائے ثعلب جوارش جالینوس لعوق سرفہ لبوب کبیر و صغیر معجون ثعلب معجون سرعلوی خان۔

ثعلب مصری

ث

ثعلب مصری۔
(Salep)
خاندان۔
(Orchidaee)
دیگرنام۔
عربی میں خصیتہ الثعلب فارسی میں خانہ روباہ ردباہ ہندی میں ثعلب مصری کاغانی میں بیر غندل بنگالی میں مسالم مچھری ۔

ماہیت۔
ثعلب مصری کے پودے کو جب پھول لگتے ہیں تویہ ایک سے دو فٹ اونچا ہوتاہے۔پتے جڑ کے نزدیک سے نکلتے ہیں اور برچھی کی نوک کی شکل کے ہوتے ہیں۔اور دو سے پانچ انچ لمبے ہوتے ہیں ۔پھول دو تین انچ لمبے اور گلابی رنگ کے اور شاخوں کے سروں پر بہت اکٹھ لگتے ہیں۔جڑ ہاتھ کے نیچے کی طرح اس کو ثعلب پنجہ کہتے ہیں یا بالکل گول جس کو ثعلب مصری کہا جاتاہے۔پھول اس کو مارچ میں لگتے ہیں۔

مقام پیدائش۔
یہ سطح سمندر سے تین ہزار سے سولہ ہزار میٹر بلندی پر ہوتی ہے۔ہندوستان کے علاوہ پاکستان افغانستان مصر روم میں پیدا ہوتی ہے۔مشہور مصر کی ہے لیکن رومی زیادہ بہتر ہے۔

اقسام
ثعلب مصری کی کئی اقسام ہیں ۔ثعلب ہندی ثعلب مصری ،ثعلب پنجہ ثعلب لاہوری اور اقسام اور ایلوفیا وغیرہ۔

مزاج۔
مؤلدو مغلظ منی مسمن بدن مقوی اعصاب مقوی باہ۔

استعمال ۔
ثعلب مصری کوزیادہ تر سفوف کرکے تقویت باہ تولید و تغلیظ منی کے لئے دودھ کے ہمراہ کھلاتے ہیں۔مقوی وممسک ہے پٹھوں کو قوت دیتاہے اکثر سفوف مقوی باہ معاجین میں ثعلب کو شامل کرتے ہیں۔تازہ ثعلب کا مربہ بناتے ہیں۔اس کا باریک سفوف چمچہ خرد ایک پیالہ بھردودھ میں ملا کر فرنی پکائی جائے تو نہایت مقوی غذا بن جاتی ہے۔
حکیم علوی خان کا قول ہے کہتازہ ثعلب مفید ہے اور جب خشک ہوجاتی ہے تو اس کا فعل باطل ہوجاتاہے ۔ثعلب کی شاخ اور پتوں کو تیل میں پکا کر لگانا باہ کیلئے فائدے مند ہے۔یہ فالج لقوہ اور امراض بلغمی کیلئے مفید ہے۔

نفع خاص۔
مقوی باہ مولدو مغلظ منی

مضر۔
قم معدہ اور گرم مزاجوں کیلئے۔

مصلح۔
آب کاسنی، سکنجین ۔

بدل۔
بوزیدان ۔

مزید تحقیق ۔
ثعلب مصری اعلیٰ قسم میں زیادہ جز گو ند کو ہوتا ہے جوکہ تقریباً48فیصد جوہر28فیصدشکر ایک فیصدی راکھ دو فیصدی فاسفیٹ کلورائیڈ پوٹاشیم کیلشیم ایلبومن وغیرہ پائے جاتے ہیں۔

مقدارخوراک۔
تین سے پانچ گرام۔

مشہورمرکب۔
معجون ثعلب سفوف الثعلب معجون مغلظ وغیرہ۔
سفوف شاہی خاص معجون الخاص اور جوارش مقوی۔

کاکڑا سینگی

ک

اکڑا سینگی ’’سومک ‘‘
دیگرنام۔
گجراتی میں کاکڑا شنگی بنگالی میں کاکڑا شرنگی سنسکرت میں کرکٹ سرنگی پنجابی میں سومک اور انگریزی میں گالز پس ٹاکیسا کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
کاکڑا کا درخت قریباًچالیس فٹ اونچا ہوتاہے۔اس کی چھال کا رنگ سفیدہوتاہے۔کاکڑا کے پتے لمبی نوک دار شاخوں پر آمنے سامنے ہوتے ہیں کاکڑا درخت کے پتے پتوں کے ڈنٹھل ٹہنیوں پر ٹیڑھے سینگ کی طرح کولے پائے جاتے ہیں ۔کئی لوگ اس درخت کی پھلیاں کو ایک خاص قسم کے کیڑا کا گھر مانتے ہیں ۔یہی کاکڑا سینگی ہے۔یہ پھلیاں سی مختلف لمبائی میں تین سے چھ انچ لمبے اور پون انچ سے ایک انچ تک چوڑے اور اندرسے خالی ہوتی ہیں ۔اس کا چھلکا پتلا سرخ رنگ کا اور اندر سے بھورا نطر آتاہے۔اس کا ذائقہ کڑوا کسیلاہوتاہے۔

مقام پیدائش۔
یہ شمالی مغربی پہاڑی علاقے سے پشاور سے شملہ تک کانگڑھ سکم بھوٹان تک پایاجاتاہے۔

مزاج۔
گرم ایک ۔۔۔خشک درجہ دوم۔

افعال۔
مخرج بلغم ،مجفف رطوبت مقوی معدہ دافع تپ۔

استعمال۔
کاکڑا سینگی کا سفوف شہد کے ساتھ ملاکر چٹانا کھانسی ضیق النفس سرفہ بلغمی خاص کر بچوں کی کھانسی کو نافع ہے۔اس کو کائے پھل کے ساتھ پیس کر سرفہ بلغمی خاص کر بچوں کی کھانسی کو نافع ہے۔اس کو کائے پھل کے ساتھ پیس کر شہد میں ملا کرچٹانے سے دمہ ختم ہوجاتاہے۔بعض اطباء کاکڑا سینگی اور بیل گرمی ہموزن کا سفوف بناکر اسہال میں دیتے ہیں ۔

کاکڑا سینگی اور اتیس پھلی ہموزن سفوف کرکے بمقدارایک گرام شہد کے ہمراہ چٹانوں بچوں کی کھانسی اسہال اور دانت نکالنے کے زمانے میں پیدا ہونے والی تمام شکایات کے لئے پر منفعث ثابت ہواہے۔

نوٹ۔
کاکڑا سینگی کے اندرسے سفید جالاکو دورکرکے استعمال کریں ۔

نفع خاص۔
کھانسی دمہ۔

مضر۔
جگرکے امراض کو۔

مصلح۔
کیترا ،گوند ببول۔

بدل۔
اصل السوس۔

مقدارخوراک۔
ایک سے دو گرام یا ماشے ۔

سورنجاں شیریں

سورنجان شیریں ۔
(Meadow Salffron)
لاطینی میں ۔
Colchicum

دیگرنام۔
یونانی میں قباروق یافل خیق ،عربی میں قلب الارض حمل فارسی میں سورنجاں حلو میڈو سیفرنی اور لاطینی میں کالچیکم کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
ایک چھوٹا ساپودا ہے۔اس کا تنا چارکونہ والا ہوتاہے۔یہ ہر موسم میں سبز رہتاہے۔اس کے پتے کم ہوتے ہیں اور لہسن کی طرح کے اس کی جڑ گرہ دار سنگھاڑہ کی سی شکل کی ہوتی ہے۔

پھول سفید زرد رنگ کے ہوتے ہیں ۔سورنجاں کےتخم عموماًاپریل میں پھلوں کے پکنے پر نکالے جاتے ہیں اور جڑیں مئی میں جمع کرلی جاتی ہیں ۔

مزاج۔
گرم خشک درجہ دوم۔

افعال۔
مفتح،مسہل بلغم مسکن و محلل مقوی باہ ،وجع المفاصل ۔۔۔

استعمال ۔
سورنجان شیریں وجع المفاصل نقرس اور عرق النساء میں اندرونی طورپربکثرت استعمال کیاجاتاہے۔ضعف باہ میں بھی مستعمل ہے۔ورموں کو تحلیل کرنے اور دردوں کو تسکین دینے کیلئے زعفران کے ساتھ اس کا ضماد لگاتے ہیں۔غلیظ بلغم کا اخراج کرتی ہے اور ہلکا مسہل بھی ہے۔

نفع خاص۔
اوجاع مفاصل ۔

مضر۔
معدہ و جگر کو ۔۔

بدل۔
سناء مکی حناء ۔

مصلح۔
کتیرا، زعفران اور شکر۔۔

مقدارخوراک۔
دو سے تین گرام۔

مشہورمرکب۔
معجون سورنجاں، حب سورنجان جوکہ وجع المفاصل نقرس اور عرق النساء میں مستعمل ہے، روغن وجع المفاصل کا خاص جز ہے۔

اجمود

ا

جمود (کرفس ) celery seeds)
فیملی۔
no. umbelliferae
دیگرنام۔
لاطینی میں اپی ایم گر ے وی یولینس ،عربی میں فطراسالہو ں یا بزالکرفس،فارسی میں کرفس ، سندھی میں دل وجان، سنسکرت میں میوری ، بنگلہ میں اجمود کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
اس کا پورا اجوائن کی طرح کا ہو تاہے۔ دراصل یہ اجوائن ہی کی قسم ہے یعنی چاروں اجوائن میں سے ایک کرفس، یہ ایک سے تین فٹ تک اونچا ہوتا ہے ۔ پتے بہت سے حصوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ تخم انیسوں کے مشابہ ہو تے ہیں ۔
اجوائن کی طرح شاخوں پر بڑے بڑے چھتے لگتے ہیں ۔ جن پرسفیدرنگ کے چھو ٹے چھوٹے پھول ہو تے ہیں ۔جن کے نیچے دانے لگنے شروع ہو جا تے ہیں ۔ جو پکنے کے بعد تخم کرفس کہلاتے ہیں ۔ اس کے زیا دہ ترتخم اور جڑ بطور دواء استعمال کی جا تی ہے ۔

نوٹ۔
بعض کے نز دیک اجمود کرفس کے علاوہ ہے کیو نکہ اجمود کا دانہ کرفس سے دگنا ہو تا ہے ۔ میرے خیا ل میں اجمود الگ دواء ہے ۔

رنگ۔
زرد سبزی مائل ۔

ذائقہ ۔
تخم کا مزہ میٹھا لیکن کڑواہٹ لئے ہو ئے ۔

بو۔
سونف سے ملتی جلتی ۔

مقام پیدائش۔
یہ پودا پاکستان اور ہندوستان میں تقریباً ہر جگہ پا یا جا تاہے ۔خصو صاً پنجا پ کے پہاڑی علاقو ں میں بکثرت اور بنگال میں عمو ماً پیدا ہو تی ہے۔

مزاج۔
گرم و خشک درجہ دوم ۔

افعال۔
مفت حصات ،مدر بول و حیض ،مفتح سدہ،معرق، کا سر یاح ،مشتہی ،قابض،قاتل ، کرم شکم،

استعمال۔
خاص طور پر سنگ گردہ ومثانہ میں اس کو تو ڑنے اور خارج کرنے کیلئے استعمال کیا جاتاہے ۔ اس کے علا وہ بھوک لگانے ، قے روکنے اور پیٹ کے کیڑوں کو مارنے، ہجکی کو روکنے کے علاوہ بلغمی امراض مثلاً کھانسی، ذات الجنب ،ذات الر یہ،عرق النساء، کمر کا درد ، نیز جگر کے دردوں کو کھولنے اور ریا ح کو خارج کر نے میں مدد دیتا ہے ۔ استستاء ،احتبا س ،بو ل و حیض میں عموماً استعما ل کرتے ہیں ۔ اس کی جڑؑ اور تخم کو باریک پیس کر گڑ میں بتی بنا کر رکھی جائے تو حمل گر جا تا ہے۔

نفع خاص ۔
مفنت حصات ، تمام بلغمی اور سرد امراض میں ۔

مضر۔
حاملہ عورتوں ،گرم مزاج اور مرگی کے مریضو ں کے لئے ۔

مصلح۔
انیسو ں ، مصطگی ۔

بدل ۔
اجوائن خراسانی ۔

کیمیاوی مر کبات ۔
اتیس میں تھو ڑا کا فور کی طرح جو معمولی زہر یلا ہو تا ہے ۔ سلفر اور اڑانے والا تیل ، ایلو من اور لعا ب کے علا وہ کچھ نمکیا ت ۔

مقدار خوراک ۔
تین سے پانچ ما شہ یا گرام بیخ کرفس پانچ سے سا ت گرام (ما شہ ) ۔

مرکبات۔
جوارش حب آلا س ، سفوف نمک ، سیلمانی اور عرق قر نفل وغیر ہ ۔

قسط شیریں

کوٹھ ‘قسط شریں’ کٹھ
Costus Root
لاطینی میں
Sasswre

a Lappa
خاندان۔
Compositae
دیگر نام۔
عربی میں قسط فارسی میں کوشتہ ہندی میں کوٹھ بنگالی میں گڑ پاچک اور انگریزی میں کاسٹس روٹ کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
اسکا پودا چھ سے آٹھ فٹ فٹ تک بلند سیدھااور موٹا ہوتاہے۔اسکے پتے کی ڈنڈی دو تین فٹ لمبی نیچے کے پتے بڑے درمیان سے کٹے ہوئے اور تکونے سے ہوتے ہیں یہ نوک دار اور سات آٹھ چوڑے ہوتے ہیں پھول گیندے کے پھلوں کی طرح گول یاایک دو انچ گھیرے کی بیگنی یا گہرے نیلے ہوتے ہیں پھل چوکور چھوٹے ،دندانے اور بھورے رنگ کے ہوتے ہیں جڑ قائم رہتی ہے اور ہر سال نیا پودا اسی سے پھوٹتاہے۔خشک ہونے پر زرد رنگ کی ہوتی ہے۔ا ور اسکو دیمک جلد لگ جاتی لہٰذا جو جڑ بطور دوااستعمال کرنی ہووہ بغیر سوراخ کے ہونی چاہیے ۔

مقام پیدائش۔
اس کا پودانمناک زمین میں دریائے جہلم و چناب اور خاص کر کشمیر کی وادیوں اور ہمالیہ کی گود کلکتہ بمبئی جبکہ چین میں دھارمک وغیرہ میں ہوتاہے۔

اقسام۔
قسط کی تین اقسام ہیں ۔
۱۔قسط شیریں اس کو قسط بحری یا قسط عربی کہا جاتا ہے۔
۲۔دوسری قسم تلخ ہوتی ہے اس کا رنگ باہر سے سیاہی مائل اور توڑنے پر اندر سے زردی مائل نکلتا ہے یہ موٹی اور وزن میں ہلکی ہوتی ہے۔اس کو قسط ہندی کہا جاتا ہے
۳۔یہ سرخی مائل وزنی اور خوشبو دار ہوتی ہے اور تلخ نہیں ہوتی لیکن قسم زہریلی ہے جس کی وجہ سے اس کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔

مزاج۔
گرم خشک۔۔۔درجہ سوم۔

افعال بیرونی۔
جالی جاذب خون محلل اور مجفف ہے۔

اندرونی افعال مقوی اعضاء رئیسہ ،مقوی اعصاب منفث بلغم دافع ورم لوزتین مسکن ورم سینہ مقوی معدہ و آمعاء کاسرریاح قاتل دیدان مدربول و حیض مسکن اوجاع محرک باہ۔

استعمال بیرونی۔
قسط کو ماء العسل میں پیس کر جھائیں اور جلد کے داغ دھبوں کو دورکرنے کے لئے طلاء کرتے ہیں داء الثعلب کو زئل کرنے بالوں کو لگانے اور گنج کے ازلہ کیلئے سرکہ اور شہد کے ہمراہ پیس کرلگاتے ہیں فالج لقوہ کزاز رعشہ وجع المفاصل نقرس عرق النساء جیسے امراض باردہ میں درد کو تسکین دینے اور اعصاب کو قوت و تحریک دینے کیلئے روغن زیتون یا روغن کنجد میں ملاکر مالش کرتے ہیں ادرار حیض اور درد رحم کو تسکین دینے کیلئے اسکے جوشاندے میں مریضہ کو بٹھاتے ہیں ۔

نوٹ۔
قسط تلخ زیادہ تر بیرونی طور پرہی استعمال کیا جاتا ہے۔

استعمال اندرونی۔
مذکورہ بالاعصبی اور بلغمی امراض میں مختلف طریقوں سے کھلاتے ہیں ضیق النفس کھانسی اوجاع صدر اور درد پہلو کو تسکین دینے کیلئے شہد میں ملاکرچٹاتے ہیں ۔اس کا سیال خلاصہ یعنی ٹنکچر ایک چمچہ خرد پانی میں ملاکر صبح و شام ضیق النفس میں استعمال کرتے ہیں ۔ورم طحال استسقاء اور کرم شکم میں سفوف بناکر کھلاتے ہیں مقوہ باہ ادویہ میں شامل کرکے مریضان ضعف باہ کو اندرونی اور بیرونی طور پر استعمال کراتے ہیں ۔ادرار حیض اور مدربول کیلئے اس کا جوشاندہ پلاتے ہیں اسے کپڑوں میں رکھنے سے کیڑے کپڑوں کو خراب نہیں کرتے ہیں ۔خاص طور پر قسط تلخ۔

نفع خاص۔
مقوی باہ اعضاء رئیسہ۔

مضر۔
مثانہ

مصلح۔
گل قند آفتابی و انیسوں ۔

بدل۔
عاقرقرحا۔

طب نبوی ﷺاور قسط بحری۔
حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ ہم ذات الجنب کا علاج قسط بحری اور زیتون سے کریں ۔

ترجمہ۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایااپنے لڑکوں کو حلق کی بیماری میں گلادباکر عذاب نہ دو جبکہ تمہارے پاس قسط موجود ہے۔

ترجمہ۔
حضرت جابربن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔۔۔اے عورتو تمہارے لئے مقام تاسف ہے کہ تم اپنی اولاد کو قتل کرتی ہو اگر کسی بچے کے گلے میں سوزش ہوجائے یا سرمیں درد ہو تو قسط ہندی کولے کرپانی میں رگڑ کر اسے چٹا دے

مقدارخوراک۔
دوسے تین گرام یاماشے ۔

زقوم

تھوہر (تھور) زقوم
انگریزی میں۔
Milk Hedge Plant Spurqe
فیملی۔
ارنڈ کا خاندان۔

دیگرنام۔
عربی میں زقوم بنگالی میں منساگاجھ ہندی میں سینڈھ کہتے ہیں۔

ماہیت۔
یہ ایک کانٹے دار پودا ہے ۔جو ایک فٹ سے لےکر دس پندرہ فٹ تک درخت نمااونچا ہوتاہے جوکہ شیردار نبات ہے اس کے تنے اور شاخوں پرکانٹے ہوتے ہیں۔اس کو توڑنے یا پودے پر شگاف دینے سے دودھ نکلتا ہے ا سکے ڈنڈے کو کاٹ کر لگایا جاتا ہے تو وہ خود بخود پودا بن جاتا ہے اس کا دودھ پانی اور گودا دواً استعمال کیاجاتا ہے۔

تھوہر کی اقسام۔
۱۔ڈنڈا تھوہر۔۲۔ندھارا تھوہر۔۳۔جودھار تھوہر۔۴۔انگلیا تھوہر۔۵۔ناگ پھنی تھوہر جس کو پنجاب میں چھتر تھوہر کہتے ہیں۔

مزاج۔
گرم خشک درجہ سوم ۔دودھ گرم خشک درجہ چہارم،

افعال۔
محمر، مقرح، محلل، مسہل بلغم، منفث بلغم، محرک جالی کاسر ریاح۔

استعمال۔
تھوہر کا دودھ مسہل بلغم ہونے کی وجہ سے آتشک، وجع المفاصل، استسقاء اور جذام میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آردنخود یا تربد باریک شدہ کو شیر تھوہر میں گوند کر چنے کے برابر گولیاں بنا کر حسب طاقت مریض کو کھلاتے ہیں۔ یہ مادے کو دستوں کے ذریعے خارج کرکے مزکورہ امراض کو فائدہ کرتا ہے۔ بلغمی کھانسی اور دمہ میں بھی یہ نسخہ مفید ہے ۔تھوہر کا معروف نمک کھار بھی بنایا جاتاہے۔ جو بلغمی کھانسی دمہ اور استسقاء میں مفید ہے تھوہر کے دودھ کو گائے کے دودھ بیس گنا میں ملا کر اس دودھ کا مکھن نکال کر گھی بنالیں، دو تین ماشہ گھی استعمال کریں خارج کرکے بدن کی کایا کلپ کردیتا ہے۔

یاد رکھیں کے مذکورہ گولیاں کھانے کے مریض کو گھی ضرور دیں تاکہ آنتوں میں خراش اور خشکی پیدا نہ ہو۔
تھور کے دودھ کی دو بوند کو مکھن ایک تولہ ملاکر کھا لینے سے قے اور اسہال ہوکر دمہ اور کھانسی کیلئے مفید ہے۔

تھوہر کا بیرونی استعمال۔
شیرتھوہرمحرک ہونے کی وجہ سے اس کو مکھن میں ملاکر دھوپ میں رکھ دیاجائے پھر اس سے جو گھی حاصل ہوتا ہے وہ بطور طلاء مجلوق کیلئے تحریک اور خیزش پیداکرکے قوت باہ میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے اگر اسکو بدن پر مالش کیا جائے تو جلد کو سرخ کر دیتا ہے۔ تھوہر کے پتوں کا پانی نکال کر اور ہموزن روغن کنجد ڈال کر پانی کو آگ پر رکھ کر خشک کر لیں۔ جب روغن باقی رہ جائے تو یہ تیل بطور مالش استعمال عرق لنساء وجع المفاصل نقرس فالج اور لقوہ میں مفید ہے۔ اس تیل کا پھایہ درد والے دانت پر رکھنا درددانت کیلئے مفید ہے اس کے پتوں کا رس کان میں ڈالنا کان درد کے لئے مفید ہے اس کے پتوں کو گرم کرکے ان کا پانی نچوڑیئے اور ہم وزن پالک جوہی کی جڑ ملاکر گولیاں بنالیتے ہیں۔بوقت ضرورت گولی آب برگ تھوہر میں گھس کر داد پر لگاتے ہیں۔

خارجی طور پرمحمر اور مقرح ہونے کی وجہ سے اس کے دودھ کو ہلدی میں ملاکر بواسیر مسوں پر لگاتے ہیں۔

نفع خاص۔
محلل محمر جلد اور منفث بلغم۔

مضر۔
گرم مزاجوں کیلئے۔

مصلح۔
دودھ گھی۔

بدل۔
ہر ایک قسم دوسرے کی بدل ہے۔

مقدارخوراک۔
دودھ نصف قطرے سے ایک قطرہ تک۔

فرفیون

ف

رفیون۔
Euphorbia Antiguorin
دیگرنام۔
عربی میں اکل بنفشہ فارسی میں افربیون انگریزی میں یو فوربیا انٹی کورنی اور لاطینی میں یو فوربیم ۔

ماہیت۔
فرفیون افریقہ کی ڈنڈا تھوہر کا منجمد شیرہے۔یہ دودھ خشک کرلیاجاتاہے۔اس کی رنگت زردی مائل بو تیز اور مزہ تیز کانٹے والاہوتاہے اور پرانا ہونے پر اس کی رنگت سرخ مکدر ہو جاتی ہے۔بہتر فرفیون وہ ہے۔جو صاف تازہ خاکی رنگ زردی مائل تندتیز مزہ ہو جب زبان پر رکھیں تو زبان کو کاٹے اور ایک مدت تک سوزش باقی رہے تازہ فرفیون پانی میں جلد گھل جاتی ہے۔

مزاج۔
گرم خشک۔۔درجہ چہارم۔

افعال ۔
بیرونی طور پر جالہ منفط، محرک اعصاب مخرش۔

استعمال۔
اندرونی طور پر مسہل اور نافع بلغم ہے۔ مقوی اعصاب بھی ہے۔اس لئے بلغمی وعصبی امراض مثلاًلقوہ فالج خدررعشہ اور استسقاء وغیرہ میں کھلائی جاتی ہے۔بعض لوگ اس کو احتباس حیض میں کھلاتے ہیں بطور دوائے مسہل استعمال کرتے ہیں ۔

بیرون طور پر فرفیون کو زیادہ تر روغن قسط یا زیتون وغیرہ میں شامل کرکے لقوہ فالج رعشہ خدر اور وجع المفاصل جیسے بلغمی و عصبی امراض میں مالش کرتے ہیں مناسب ادویہ کے ہمراہ مقوی باہ میں شامل کرکے عضو مخصوص کو تحریک دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں لقوہ و فالج میں آب مرزنجوش کے ساتھ حل کرکے ناک میں ٹپکاتے ہیں ۔مسقط جنین ہونے کی وجہ سے تنہا یا مناسب ادویہ کے ہمراہ فرزجہ استعمال کرتے ہیں لیکن یہ منفظ ہونے کی وجہ سے اندرزخم پیدا کرسکتی ہے۔

نوٹ۔
فرفیون اور افیون کو ہرگز اکٹھا کھرل نہ کریں ورنہ دونوں کا اثر زائل ہوجائے گا۔

نفع خاص۔
مسہل امراض عصبی ۔

مضر۔
آمعاء ،خصیئے اور رحم کیلئے ۔

مصلح۔
گوگل اور ملٹھی ۔

بدل۔
شیر زقوم ‘ماذریون وغیرہ۔

مقدارخوراک۔
دو سے چاررتی تک۔

قوت اثر۔
قوت اسکی چار برس تک رہتی ہے۔

سہانجنہ

سہانجنہ ’’سہجنہ ‘‘
Horse Radesh Moringa
دیگر نام۔
اردو میں سہانجنہ سندھی میں سہانجڑو بنگالی میں سوجنہ سہجنہ مرہٹی میں شیوگا گجراتی میں سرگوایاشاجنہ انگریزی میں ہارس ریڈش مورنگا فلاورز اور لاطینی میں موری نگااولی فیرا کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
سہانجنہ کا درخت بیس سے تیس فٹ اونچا ہوتاہے اور تنے کی گولائی ایک فٹ سے پانچ فٹ تک ہوتی ہے۔تنے کی چھال ملائم بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔اس کے تنے سے بہت سی شاخیں نکل کر پھیلتی ہیں اس کی ہر شاخ پر اور کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں لگی ہوتی ہیں ۔پتے چھوٹے چھوٹے صنوبری شکل کے پتے ایک دوسرے کے مقابل لگتے ہیں ۔پھول پہلے کلیاں سرخ سی نظر آتی ہیں ۔لیکن جب کلیاں پھول بن جاتی ہیں توعموماًسفید پھول ہوتاہے۔ان پھولوں میں سے خوشبو نظر آتی ہیں ۔اور یہ بطور دواًمستعمل ہے۔پھلیاں تقریباًدو بالشت لمبی اور انگلی کے برابر موٹی ہوتی ہیں ۔اوران پر لکیریں ہوتی ہیں ۔پھیلوں کے جوف سے تکونے سے تخم نکلتے ہیں اس درخت کے تنے سے گوند ببول کی مانند گوند نکلتاہے۔سہانجنہ کی جڑ پتے پھول اور پھلیاں سب استعمال ہوتے ہیں ۔

مقام پیدائش۔
پاکستان ،ہندوستان برما اور لنکا میں ہر جگہ عام پایا جاتا ہے۔

مزاج۔
گرم خشک بدرجہ سوم ۔

افعال۔
قاتل دیدان ،دافع امراض باردہ وبلغمیہ کاسرریاح ہاضم منضج بلغم تخم دافع استسقاء مقوی باہ روغن محلل مسکن مقوی اعصاب مدربول ۔

استعمال۔
سہانجنہ کے پھولوں کا سالن گوشت کے ہمراہ پکاکر کھاتے ہیں اور پھلیوں کا سالن بھی بنایا جاتاہے۔اس کے علاوہ پھلیوں کا اچار سرکہ میں ڈالاہوا وجع المفاصل درد کمر فالج اور لقوہ وغیرہ کیلئے مفیدہے۔یہ اچار ترش ہونے کے باوجود اعصاب کو نقصان دے نہیں ۔

سہانجنہ کے پھولوں پھلیوں گوند اور جڑ کو سرد بلغمی امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔

بھوک لگاتا ہے۔ ریاح کو خارج کرتا ہے۔ اور درد شکم کو دور کرتا ہے۔اس کے پتوں کا رس پلانا پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہے۔کھانسی دمہ ورم طحال وجع المفاصل اور درد کمر میں اس کی پھلیوں اور پھولوں کا سالن پکا کر کھلایا جاتا ہے۔

مدربول اور ہاضم ہونے کی وجہ سے اس کی جڑ کا پانی دودھ میں ملاکر پلانا اندرونی اورام ورم طحال ضعف اشتہا دمہ اور نقرس میں مفید ہے۔اور مثانہ وگردہ کی پتھری توڑتا ہے۔ چھال کا جوہر شاندہ بچوں کے ورم جگر میں استعمال کرتے ہیں ۔اس کے تخم مقوی باہ اور دافع استسقاء بیان کئے جاتے ہیں

بیرونی استعمال ۔
اس کے پتوں کو تحلیل اورام ،تسکین درد کیلئے بیرونی طور پر استعمال کرتے ہیں ۔اسکی چھال کے جوشاندے سے غرغرے کرانے قلاع الفم اور ورم لثہ کیلئے مفیدہے۔اس کی جڑ کے جوشاندے سے غرغرے کرانے سے گلے کی سوزش دور ہوجاتی ہے۔

نفع خاص۔
دافع بلغم ،مدربول ،

مضر۔
گرم امزجہ کیلئے ۔

مصلح۔
سرکہ ۔

مقدارخوراک۔
تخم ایک گرام (ماشے) اچار۔۔ایک تولہ یا دس گرام۔۔۔اور ۔۔۔پتے جڑ وغیرہ ۔۔پانج سے سات گرام ۔۔یا حسب عمر۔۔

نک چھکنی

نک چھکنی ’’ناک چھکنی‘‘
Sneeze Wort
دیگرنام۔
بنگالی میں بانچٹی سنسکرت میں چھکنی ا

ور انگریزی میں سنیزورٹ کہتے ہیں ۔

ماہیت۔
یہ ایک مفروش بوٹی ہے۔جو سبزی مائل زرد ہوتی ہے۔پتے چھوٹے گاجر کے پتوں کی طرح لیکن ان سے چھوٹے اور زمین پر مفروش چھتہ دار ہوتی ہے۔یہ سخت لیکن نمناک زمیں پر پیدا ہوتی ہے۔پھول سفید یا زرد گچھوں میں لگتے ہیں جو گول ننھے عورتوں کے لونگ کی مانند اس کے بیج مثل تکمہ چھوٹے اور چٹپے ہوتے ہیں ۔

نوٹ۔
بعض نے اس کو کندش اور بعض نے عور العطاس لکھاہے جوکہ غلط ہے۔

مزاج۔
گرم خشک۔۔۔درجہ سوم۔

افعال۔
معطس دافع امراض بلغمیہ و عصبانیہ مقوی معدہ مقوی باہ جالی ۔

استعمال ۔
احتباس نزلہ و زکام درد سر نزلی اوردرد سر بارد میں اس کی ہلاس بناکرسنگھاتے ہیں جس سے چھینکوں کے ذریعے فاسد رطوبت خارج ہوجاتی ہے۔امراض باردہ بلغمیہ اور معدے کو قوت دینے بھوک لگانے صلابت طحال کو دورکرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں بلکہ اس کے لئے نک چھکنی کے پتے گھوٹ کر پلانے مفید ہے اس کے پتوں کا سفوف بقدر ایک گرام قند سیاہ میں لپیٹ کر کھلانے سے ٹلی ہوئی ناف اپنی جگہ آجاتی ہے۔مقوی باہ ہونے کی وجہ سے اس کی معجون بنائی جاتی ہے۔جوتقویت باہ کے لئے مستعمل ہے ۔
جالی ہونے کی وجہ سے اس کا ضماد سفیدو سیاہ داغ جھائیں چھبب اور چہرے کی کھجلی کو دور کرتی ہے اور اس کا ضماد کرنے سے دار کو فائدہ ہوتاہے۔

مصلحَ۔
کتیرا ،روغن بادام یا زرد،

بدل ۔
سن کے بیج ،چھینکوں کیلئے کائپھل

مقدارخوراک۔
تین سے پانچ گرام ۔